EN हिंदी
ناگزیر | شیح شیری
na-guzir

نظم

ناگزیر

اصغر مہدی ہوش

;

یہ چاندنی یہ ستارے یہ آبشار یہ جھیل
یہ جگنوؤں کی چمک اور یہ تتلیوں کی اڑان

یہ کوئلیں یہ پپیہے طرح طرح کے یہ پھول
گھنے گھنے سے درختوں کے میٹھے میٹھے پھل

حسین خواب میں بچے کی جادوئی مسکان
وفا خلوص محبت جہاد قربانی

یہ سب قدیم ہیں ان میں نیا تو کچھ بھی نہیں
ہمارے اپنے مسائل بھی سب پرانے ہیں

یہ کشت و خون یہ غارت گری یہ بربادی
ہوا و حرص و مظالم کی داستان طویل

گلی گلی یہ شراب و شباب کے فتنے
زر و زمین کا اب تک وہی قدیم فساد

یہ ساری باتیں ہمیشہ سے تھیں اور آج بھی ہیں
یہ بات اب بھی نہیں طے ہوئی کہ سچ کیا ہے

اگر یہی ہے مقدر ہماری دنیا کا
کسی رسول کے آنے کی کیا ضرورت تھی