EN हिंदी
نہ اک پتے کو رو بابا | شیح شیری
na ek patte ko ro baba

نظم

نہ اک پتے کو رو بابا

جعفر ساہنی

;

شفق جب پھول کر رنگ حنا تھی
اور ہوا کے لب سلے تھے

ایک بوڑھا پیڑ برگد کا
کھڑا گنگا کنارے

دل گرفتہ
خود سے محو گفتگو تھا

''وہ مری اک شاخ کا پتہ
مرے ہی جسم کا حصہ

گرا
گر کر ستارا ہو گیا

پانی کا پیارا ہو گیا
مجھ سے کنارہ ہو گیا''

وہیں سرگوشیوں میں
اک پتنگا

گنگنایا کان میں اس کے
''نراشا تم میں کیوں جاگی

مرے بابا؟
تمہارے انگ کے کتنے ہی پتے

اب بھی گن گاتے تمہارا ہیں
سہارا تم بنو ان کا

تمہارا وہ سہارا ہیں
نہ اک پتے کو رو بابا!''