ان سے کہنا کہ وہ
اپنی اس جنگ میں
اب اکیلے نہیں
آج کی جنگ سب کی ہے
اور سارے وقتوں کی ہے
اپنے اپنے محاذوں کی دہلیز پر
ہم بھی مورچہ بند اور صف بہ صف ان کے ہم دوش ہیں
ہم کہ خاموش ہیں
ہم کہ خاموش ہیں کیتلی کا تلاطم نہیں
چیخنے کے ہنر شناسا نہیں
بے محل حلق بازوں
اندھیرے کے عف عف زنوں کی طرح
ان سے کہنا
کہ ہم لمحے لمحے کے ہمرا دھڑکتے ہوئے
اپنے ہونے کی ہر شکل پر
خود گواہی بنے
آج کی جنگ میں
ان کے ہم دوش ہیں
اور سر سینہ و دوش تانبا نا لوہا مگر ہم نہتے نہیں
امن بھی ہیں محبت بھی ہم
رزم بھی درس عبرت بھی ہم
صدق کے زور سے
فکر کی کاٹ اور درد کی دھار سے لیس شمشیر خامہ سپر لوح ہم
ان سے کہنا
کہ جو آج کی جنگ وہ لڑ رہے ہیں
وہ سب کی ہے اور سارے وقتوں کی
اور ان کی طرح
ہم بھی اس جنگ میں
اپنے اپنے محاذوں پہ پرچم کشا
ان کے ہم دوش ہیں
اپنے آدرش کی چوکیوں کے نگہ دار غافل نہیں
گرچہ خاموش ہیں
نظم
مزاحمتوں کے عہد نگار
اقبال کوثر