میرے ماضی کی آنکھ مستقبل
اور یہ میرا ثبوت
بوند جو پہلے سمندر تھی کبھی
یہ ہوائیں
جو کبھی تھیں سانسیں
اور اس پیڑ کی تنہائی
مری آواز کے پانی میں کبھی بھیگے گی
مرے ماضی کی آنکھ مستقبل
اور یہ میرا ثبوت
وقت ناپید سے آتے جاتے
اس کی تاریخ میں سو جاؤں گا
میں اگر تھا تو میں ہو جاؤں گا
نظم
مستقبل کی آنکھ
ریاض لطیف