EN हिंदी
مستقبل کی آنکھ | شیح شیری
mustaqbil ki aankh

نظم

مستقبل کی آنکھ

ریاض لطیف

;

میرے ماضی کی آنکھ مستقبل
اور یہ میرا ثبوت

بوند جو پہلے سمندر تھی کبھی
یہ ہوائیں

جو کبھی تھیں سانسیں
اور اس پیڑ کی تنہائی

مری آواز کے پانی میں کبھی بھیگے گی
مرے ماضی کی آنکھ مستقبل

اور یہ میرا ثبوت
وقت ناپید سے آتے جاتے

اس کی تاریخ میں سو جاؤں گا
میں اگر تھا تو میں ہو جاؤں گا