EN हिंदी
مشترکہ خواب کی قبر پر | شیح شیری
mushtarka KHwab ki qabr par

نظم

مشترکہ خواب کی قبر پر

داؤد رضوان

;

رات تیری مری آرزوؤں کا مسکن یہ رات
گھور کالی سیہ بادلوں سے اٹی

تیرے میرے گناہوں ثوابوں
سوالوں جوابوں سے عاری یہ رات

خون کی حدتوں میں دہکتی ہوئی
سارے خوابوں کا ایندھن بناتی ہوئی

رتجگوں کی چتا
جو تری میری آنکھوں میں بھڑکی

بھڑک کے بجھی
ساری عمروں کے دکھ

آتی جاتی ہر اک سانس میں ہیں سنبھالے ہوئے
سانس جو آس کی دوستی کو بھلا بھی چکی

دھیرے دھیرے سمٹتی ہوئی
کن یگوں پر نظر کو جمائے ہوئے

برف ہونے لگی
رات وعدے سبھی اصل کے

جو نہ پورے ہوئے
کیوں کیے

کور آنکھیں بھکاری بنی ہیں
مجسم سوالی بنی ہیں

خموشی کا کاسہ لیے
وصل کی ریز گاری کے ہیں منتظر

چھن چھنن
کوئی آواز کوئی بھی

خوشیوں کے سکوں سے لبریز آواز
آنکھیں سنیں

کیسے لیکن سنیں
سرمئی شام اپنا لبادہ بدل بھی چکی

رات آئی
یہ ڈولی نہیں کچھ جنازے اٹھائے ہوئے

سارے وعدے بھلائے ہوئے
شہر افسوس

ایک ماتم لہو کی روانی میں ہے
راکھ ہی راکھ آنکھوں کے پانی میں ہے