EN हिंदी
مشکل | شیح شیری
mushkil

نظم

مشکل

بلال احمد

;

خدا کو یاد کرتا ہوں تو ماں کی یاد آتی ہے
ابھی ازلوں سے گرداں چاک کی مٹی کا نم آنکھوں میں روشن تھا کہ میں نے ماں کو دیکھا تھا

مجھے مسکان کا پہلا صحیفہ یاد ہے اب تک
کہ دل جس کی تلاوت سے سکوں کے گھونٹ بھرتا تھا

کہ جس کی لو، اگرچہ وہ نہ شرقی تھی نہ غربی تھی
مگر دو نین کے بلور میں کچھ یوں بھڑکتی تھی

کہ میرے شرق و غرب اک نور کے ہالے میں ایمن تھے
(خدا گر نور ہے تو ماں کی آنکھوں کے سوا کن طاقچوں کو زیب دیتا ہے)

خدا گر رد نہ کر دیتا تو میں آنکھوں سے ضو کرتی اسی لو کی قسم کھاتا
محبت کے مقدس روغن زیتوں سے جو خود میں بھڑکتی تھی

مجھے بھولا نہیں اب تک
وہ پہلا لمس جس سے میری قسمت کی لکیروں میں ابھی تک تابناکی ہے

محبت کا وہ جبرائیل مجھ سے بات کرتا تھا تو میں سرشار ہوتا تھا
میں ڈرتا ہوں خدا کے رزق کا کفران کرنے سے

مگر وہ چاشنی جو رزق میں اس لمس کی شرکت سے تھی اب خواب لگتی ہے
سو ماں کے بعد اک گمبھیر مشکل میں پڑا ہوں میں

کچھ ایسا ہے کہ مجھ کو ربط کچھ باقی نہیں اب نوریان لمس و خندہ کی حکایت سے
سو میں اب لمس و خندہ کے صحیفوں کے بنا عاجز ہوں رب کو بھی سمجھنے سے

کچھ ایسا ہے
کہ جیسے میں کسی بھولی ہوئی امت کے اک متروک معبد میں عبث فریاد کرتا ہوں

خدا کو یاد کرتا ہوں