جاگتا ہوں تو ستارے مری آنکھوں میں اتر جاتے ہیں
نیند آتی ہے تو مہتاب سا چہرہ تیرا
آئینہ مجھ کو دکھاتا ہے کئی چہروں کا
دیکھتے دیکھتے خوابوں میں کئی خواب بکھر جاتے ہیں
وقت کی گلیوں میں آوارہ لیے پھرتا ہے احساس جمال
میں سفینے کی طرح دیکھتا رہتا ہوں تجھے
چاندنی میرا کفن تیری قبا بنتی ہے
موج احساس میں روحوں کا سفر جاری ہے
ہم جو زندہ تھے جو زندہ ہیں نہ زندہ ہوں گے
ایک لمحہ کسی رعنائی کا پیکر تھا کبھی
میرے خوابوں کا لہو مجھ سے لیے جاتا ہے
ایک لمحے نے تراشا ہے مجھے جام کی صورت تجھ کو
سر بازار دکھایا ہے کہ تو مینا بدوش
آئنہ خانے میں نیلام کی تصویر دکھائی دی ہے
رقص لمحوں کا وہی فن خریداری ہے
آج سرمایۂ افلاس وہ فن کی قسم کھاتے رہے ہیں برسوں
گردش جام میں کیوں جام سر شام سمجھتے ہیں مجھے
کیوں ترے جسم کے پتھر کو سمجھتے ہیں کہ تو مینا بدوش
ان کی آغوش میں چپ چاپ چلی جائے گی
ہم تو روحیں ہیں جنہیں چاند کفن دوز کیے جاتا ہے
ہم سر دست جو پتھر بھی ہیں شہکار بھی ہیں
ٹوٹ جاتے ہیں بکھر جاتے ہیں مر جاتے ہیں
کس لیے حسرت بیداد کو سینے سے لگایا تھا کبھی
نظم
میوزیم
احمد ظفر