EN हिंदी
مسافر پرندے | شیح شیری
musafir parinde

نظم

مسافر پرندے

شفیق فاطمہ شعریٰ

;

افق تا افق نیلگوں آسماں
مسافر پرندوں کی منزل کہاں

بہت دور پیچھے کو اس بحر کے ماورا
اترتی رہی برف جمتی رہی تہ بہ تہ آشیانوں کے پاس

تب نظارے نظر آشنا
اذن آوارگی زاد افسردگی دے کے تھرائے با چشم تر

کہ شاید بہت دور آگے کو
اس بحر کے ماورا

زمرد جڑے ساحلوں نے سنا ہو سلام عید کا
دھوپ کے جشن آہٹیں

نغمۂ گرم خورشید کا
افق تا افق نیلگوں آسماں

کوئی شاخ گل ہے نہ کوئی منڈیر
گھڑی دو گھڑی پنکھڑی جیسے پر جوڑ کر بیٹھ جائیں جہاں

گھڑی دو گھڑی چہچہائیں جہاں
کوئی اپنے دکھتے کو کو اگر اگر میں گر گیا

ذرا بھی فضاؤں کا دامن نہ بھیگا
نہ وحشی ہواؤں کا طوفاں رکا

ستارے بدستور نیلاہٹوں میں چمکتے رہے
مثل گرداب گرداں شب و روز کی چرخیاں

مسافر پرندوں کی منزل کہاں
بہت دور پیچھے کو اس بحر کے ماورا

ہر نئی دل کشا اگنی منجمد
زیر اہرام یخ محو خواب

ساز نہروں کے دربار فصل بہاراں کے
تابوت صدر نگ ٹیلوں کے پھولوں کے

تاج و گہر
منجمد زندگی کی فغاں

بہت دور آگے کو اس بحر کے ماورا
وہ اک روشنی کا جہاں

وہ اک گل پس خارزار
وہ اک دانۂ زیر دام

اسے دیکھنا اور ٹھٹھکنا بھی کیا چیز ہے
مگر آہ اس موڑ پر آج پرواز‌ و آواز تھی

حاصل مشت پر
حاصل داستاں