جب مسجدوں اور امام بارگاہوں میں
نقب لگائی جاتی تھی
تو کئی بے رنگ دائرے سوالیہ نشان لئے
ہمارے راستے میں آ کھڑے ہوتے
کہ کلیساؤں اور مندروں کا نظام کون سے خدا کے پاس ہے
جو امن کی فاختاؤں کو
عبادت گاہ کے روشن دانوں میں بھیج دیتا ہے
اسی سوال میں جوابی رنگ بھرنے کے لئے
ہم نے لہو کو بارود میں گھول کر انسانیت کا بھرم گنوا لیا
اب کسی بھی نام کا جنگل پکارے
موت پر پھیلا کے ناچتی ہے
اور ہم دعائیہ ہاتھوں میں قبر کھودنے کے لئے
زمین ڈھونڈتے ہوئے
اپنے جسموں میں دفن خیراتی سانسوں پہ پلتی
زندگی کے گز ناپتے ہیں
ہم سیاہ لبوں سے نکلی ہوئی بد دعاؤں کا
وقت قبولیت ہیں
اسی لئے تو نشانہ باز موت ہمیں
عبادت گاہوں میں بھی ڈھونڈ لیتی ہے
ہم مٹھی بھر لوگ تمہارے ٹکڑوں پہ پلنے آ گئے
تو تمہاری تعفن اگلتی گلیوں نے
روزگار پہ لگا دیا
رزق تو کوڑا کرکٹ کے ڈھیر سے بھی مل جاتا ہے
مگر وہ ادھڑے ہوئے ادھ جلے جسم
کہاں تلاش کریں
جو خدا سے مذاکرات کرنے گئے تھے
اور ٹکڑوں کی صورت کلیساؤں کی سفاک دیواروں پہ
چسپاں کر دیئے گئے
اور ہم جہنم رسیدہ لوگ الوداعی شام کی
خاک پھانکنے آئے ہیں
کہ سنا تھا شہر میں پھر سے
بکھرے ہوئے چہروں کی نمائش ہے
نظم
مردہ لوگوں کی تصویری نمائش
سدرہ سحر عمران