دہکتے سورج کا سرخ چہرہ
لپیٹ کر رکھ دیا گیا ہے
خلا میں سیارے بکھرے بکھرے ہیں
جوف افلاک پھٹ پڑا ہے
پہاڑ دھنکے ہوئے فضاؤں میں تیرتے ہیں
اتھاہ ساگر کف دہن سے سلگتے لاوے
اگل رہے ہیں
کوئی مرے منتشر عناصر کو
پھر سے پہلا سا روپ دے کر
کشاں کشاں لے چلا ہے گویا
جھلس رہا ہے بدن
مری ہڈیاں پگھلنے لگی ہیں
آنکھوں میں دیکھنے کی سکت سلامت ہے
دیکھتا ہوں ہر ایک چہرے میں اپنے چہرے کا عکس
لیکن کسی میں پہچان کی جھلک تک نہیں ہے
ہر ایک بند مٹھی میں پرزہ ہائے سیاہ تھامے
یہ سوچتا ہوں سیاہیوں کو دھلاؤں کیسے
مرے پس پشت کالے اوراق
تیز نظروں کی زد میں لرزیدہ دم بخود ہیں
میں چیخ اٹھتا ہوں
میری آواز میرے سینے میں گھٹ رہی ہے
میں ہاتھ اٹھاتا ہوں
ہاتھ شل ہیں
دہائی دیتا ہوں
سننے والا مرے سوا کوئی بھی نہیں ہے
ہزاروں ہم دم کروڑوں ہم شکل ہیں
مگر کوئی بھی نہیں ہے

نظم
مراجعت
عزیز تمنائی