ملبوس پہنے رات اپنا زر نگار
زیر جامہ تاز میں لٹکا ہوا
اس کا سیاہ
شعلے اگلتے نالیوں کے دائرے، فولاد کے
جنت سے دھتکاری ہوئی اولاد کے
راتوں کو چلتے کارواں
مسمار شہروں کا دھواں
احمریں سیال سے چھلکے ہوئے
باغوں کے حوض
''نفت'' کے شعلے زمیں پر پھینکتے ہیں
''راس چکر'' کے بروج
گھاس کے جھلسے ہوئے میدان میں
اک کمر تک برہنہ
لنگوٹ باندھے پہلواں
کھیلتا ہے داؤ پیچ
ایک نا پیدا عدو سے
نہیں کرتا جو اس کا سامنا
نظم
مقاومت
آصف رضا