پرانا پاسباں ظل الٰہی کا
جسے چاہے کرے منصب عطا عالم پناہی کا
اسے ترکیب آتی ہے
کسی مضمون کہنہ کو نیا عنوان دینے کی
وہ دیدہ ور ہمیشہ سے معین ہے
ہمارے راستے کے پست و بالا پر
وہ دانا اپنے منصوبے بناتا ہے
ہماری فطرتوں کی خاک ظلمت سے
ہماری خواہش تکرار کی دیرینہ عادت سے
وہ معبد ساز بت گر اپنی ہستی کے تقدس میں
سدا محفوظ رکھتا ہے
ہمارے گھر کو تحقیقی تجسس کی بلاؤں سے
کہیں اوہام کی عمدہ شبیہوں میں
ثقافت کے نگارستاں سجاتا ہے
کہیں خوش فہمیوں کے استعارے سے
ہرے لفظوں کے باغیچے کھلاتا ہے
کہیں نوک سناں کے اسم و افسوں سے
لہو کی بوند میں تسلیم کی کرنیں جگاتا ہے
قلوب اہل زمیں کے اس کی مٹھی میں دھڑکتے ہیں
شعور اس کا سدا مامور رہتا ہے
ہمیں اچھے برے کے فلسفے کی آڑ میں
ہم سے چھپانے پر
مگر اس کا مداوا کیا
کہ وہ پروردگار زور حکمت اپنی نیندوں میں
ہمیشہ سے
وجود فرد میں اک مضطرب سی شے سے ڈرتا ہے
وہ شے جس کی حقیقت
وقت کا ابلیس اس پر فاش کرتا ہے
نظم
منکر کا خوف
آفتاب اقبال شمیم