سبو ٹوٹے
محبت کی نمازوں میں
وضو ٹوٹے
دعا روئی
دعا کے آسمانوں پر
کئی چشمان و لب روئے
کبھی کوئی سبب رونے کا نکلا ہے
مگر ہم بے سبب روئے
زمینوں اور زمانوں کی عجب
رنجو گردش میں
ہوا کے آستانے پر
جھکائے سر پشیماں بے زباں
تنہائیوں کے قافلے اترے
وہی ہم تھے
مجسم بندگی زخمی تماشے کے نشانے پر
کبھی سہمے ہوئے خواہش کی
رتیلی فضاؤں میں
تمہیں دیکھا تمہیں چاہا
کبھی موسم فراموشی کے نرغے میں
اداسی کی فصیلوں پر
اذان خود کلامی دی
تمہارے فاصلوں کو اپنی محرومی کی خلوت میں
بٹھایا بام و در کو
اجنبیت کے ستاروں سے سجایا
وہی ہم تھے
ہماری بات کے رقص جنوں میں
کھو دیا تم کو
وہی تم تھے
وداع لمحۂ تعجیل کی خاطر
تھکے ٹوٹے ہوئے آ کر لپٹ جانے
کی خواہش میں
بکھرتے اپنی آنکھوں کے مقدس موتیوں میں
لمحۂ آخر گزر جانے کی دھن میں
عمر بھر خود سے گریزاں رہ گئے
ہم تم حجاب نا شناسائی کے
مجرم بن گئے
ہر فاصلہ کتنے ادھورے فاصلوں کا
استعارہ ہے
سمندر دیکھ تیری آستینوں میں
فغاں کرتا کنارہ ہے
ملاقاتیں، نہیں پھر بھی ملاقاتیں
ملاقاتوں کی کچھ امید باقی رہ نہ جائے
اشک کا اک آخری قطرہ بھی
یوں ہی بہہ نہ جائے
نظم
ملاقاتیں نہیں پھر بھی ملاقاتیں
عین تابش