یہ رات اس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے
عظیم تر ہے کہ اس کی شاخوں
میں لاکھ مشعل بکف ستاروں
کے کارواں گھر کے کھو گئے ہیں
ہزار مہتاب اس کے سائے
میں اپنا سب نور رو گئے ہیں
The Meeting
A tree born of pain, this night,
greater in glory than you and I.
یہ رات اس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے
مگر اسی رات کے شجر سے
یہ چند لمحوں کے زرد پتے
Greater in splendour,
for torch-bearing caravans
of myriad stars
trapped in its branches,
have vanished;
moons, in thousands,
in its darkness
surrendered their brilliance.
گرے ہیں اور تیرے گیسوؤں میں
الجھ کے گلنار ہو گئے ہیں
اسی کی شبنم سے خامشی کے
یہ چند قطرے تری جبیں پر
برس کے ہیرے پرو گئے ہیں
۲
بہت سیہ ہے یہ رات لیکن
اسی سیاہی میں رونما ہے
وہ نہر خوں جو مری صدا ہے
اسی کے سائے میں نور گر ہے
وہ موج زر جو تری نظر ہے
From this glorious night:
a tree born of pain,
a few moments: its yellowed leaves,
caught in your tresses
are a burning scarlet,
its silence: the dewdrops on your brow,
a diamond string.
وہ غم جو اس وقت تیری بانہوں
کے گلستاں میں سلگ رہا ہے
وہ غم جو اس رات کا ثمر ہے
کچھ اور تپ جائے اپنی آہوں
کی آنچ میں تو یہی شرر ہے
(2)
Pitch dark is this night
but in the darkness dazzles
the blood-river
that is my voice,
your eyes: a sparkling gold,
create light.
ہر اک سیہ شاخ کی کماں سے
جگر میں ٹوٹے ہیں تیر جتنے
جگر سے نوچے ہیں اور ہر اک
کا ہم نے تیشہ بنا لیا ہے
۳
الم نصیبوں جگر فگاروں
کی صبح افلاک پر نہیں ہے
جہاں پہ ہم تم کھڑے ہیں دونوں
سحر کا روشن افق یہیں ہے
یہیں پہ غم کے شرار کھل کر
شفق کا گلزار بن گئے ہیں
یہیں پہ قاتل دکھوں کے تیشے
قطار اندر قطار کرنوں
کے آتشیں ہار بن گئے ہیں
یہ غم جو اس رات نے دیا ہے
یہ غم سحر کا یقیں بنا ہے
یقیں جو غم سے کریم تر ہے
سحر جو شب سے عظیم تر ہے
The pain that seethes
in your verdant arms:
the fruit of this night,
swelled by its own agony,
can fuel into
a spark, a blaze.
نظم
ملاقات
فیض احمد فیض