EN हिंदी
ملاقات | شیح شیری
mulaqat

نظم

ملاقات

قمر جمیل

;

بھولی بسری یادیں اب بھی کانوں میں رس گھولتی ہیں
مجھ سے کیسی کیسی باتیں تنہائی میں بولتی ہیں

جادو کیسے کیسے جادو چلتے ہیں گلزاروں سے
گیسو کیسے کیسے گیسو اڑتے ہیں رخساروں سے

شمعیں کیسی کیسی شمعیں جلتی ہیں دیواروں پر
پردے کیسے کیسے پردے گرتے ہیں نظاروں پر

نیند کے ماتے اندھیاروں کی ظالم قاتل روشنیاں
دیئے کی لو میں جلنے والی جھلمل جھلمل روشنیاں

ناچ رہی ہے چاند کے آگے جانے کتنی کالی دھوپ
روشنیوں میں ڈوب رہے ہیں جانے رات کے کتنے روپ

خوشبو بن کے پھیل چکی ہیں کتنی یادیں کتنے سن
لڑیاں بن کے ٹوٹ چکی ہیں کتنی راتیں کتنے دن

وہ یادیں جو آنسو بن کے پلکوں پر لہراتی ہیں
جانے کن کن ویرانوں میں دیئے جلا کر آتی ہیں