''ہوا کے پردے میں کون ہے جو چراغ کی لو سے کھیلتا ہے
کوئی تو ہوگا
جو خلعت انتساب پہنا کے وقت کی رو سے کھیلتا ہے
کوئی تو ہوگا
حجاب کو رمز نور کہتا ہے اور پرتو سے کھیلتا ہے
کوئی تو ہوگا''
''کوئی نہیں ہے
کہیں نہیں ہے
یہ خوش یقینوں کے خوش گمانوں کے واہمے ہیں جو ہر سوالی سے بیعت اعتبار لیتے ہیں
اس کو اندر سے مار دیتے ہیں''
''تو کون ہے وہ جو لوح آب رواں پہ سورج کو ثبت کرتا ہے اور بادل اچھالتا ہے
جو بادلوں کو سمندروں پر کشید کرتا ہے اور بطن صدف میں خورشید ڈھالتا ہے
وہ سنگ میں آگ، آگ میں رنگ، رنگ میں روشنی کے امکان رکھنے والا
وہ خاک میں صوت، صوت میں حرف، حرف میں زندگی کے سامان رکھنے والا
نہیں کوئی ہے
کہیں کوئی ہے
کوئی تو ہوگا''
نظم
مکالمہ
افتخار عارف