عدم وجود کے مابین فاصلہ ہے بہت
یہ فاصلہ ہمیں اک روز طے تو کرنا ہے
وہ کشت گل ہو کہ ہم بوئیں راہ میں کانٹے
کوئی بھی فعل ہو پر ایک دن تو مرنا ہے
ہمارے پیچھے ہیں وہ بھی ہمیں عزیز ہیں جو
اسی طرف سے انہیں ایک دن گزرنا ہے
صبا بریدہ بھی گل ہیں وفا گزیدہ بھی دل
یہ بات ذہن میں رکھنی ہے اور ڈرنا ہے
کسی نے پہلے لگائے تھے سایہ دار شجر
انہیں کی چھاؤں میں بیٹھے ہیں آج ہم آ کر
نظم
مکافات
اختر الایمان