EN हिंदी
مجھے یاد ہے | شیح شیری
mujhe yaad hai

نظم

مجھے یاد ہے

مغنی تبسم

;

مجھے یاد ہے تری گفتگو جو فضا میں تھی
مجھے یاد ہے تری آرزو

تری آرزو کے قریب ہی
مری زندگی تھی کھڑی ہوئی

مرے راستے میں ہر ایک سمت رکاوٹیں تھی اٹی ہوئی
مجھے یاد ہے

وہ انا بدست سوال بھی
وہ خیال بھی

کوئی حادثہ جو شریک ہو تو سفر کٹے
کہ یہ دائرہ تو قفس ہے جس کا محیط مرگ دوام ہے

مجھے زندگی کا شرار جستہ عزیز تھا
کہ میں دائرے سے نکل گیا

تری آرزو سے خجل ہوں میں
مجھے اپنے عہد کا پاس کچھ بھی نہیں رہا