مجھے ان جزیروں میں لے جاؤ
جو کانچ جیسے
چمکتے ہوئے پانیوں میں گھرے ہیں
جہاں لڑکیاں
ناریل کے درختوں کے پتوں سے
اپنے بدن کے
خطرناک حصے چھپاتی ہیں
پھولوں کے گجرے پہن کر
بڑی شان سے مسکراتی ہیں
بچے جہاں
ریت کے گھر بناتے ہیں
اور ساحلوں کی چمکتی ہوئی ریت پر
لوگ سن باتھ لیتے ہیں
پانی میں غوطہ لگا کر
سیپیاں مچھلیاں اور گھونگھے پکڑتے ہیں
اور رات کو
چاندنی میں
ناچتے اور گاتے ہیں
اور پھونس کے
ننھے منے مکانوں میں
آرام کی نیند سو جاتے ہیں
مجھے ان جزیروں میں لے جاؤ
جو کانچ جیسے
چمکتے ہوئے پانیوں میں گھرے ہیں
تو ممکن ہے میں
اور کچھ روز جی لوں
کہ شہروں میں اب
میرا دم گھٹ گیا ہے
نظم
مجھے ان جزیروں میں لے جاؤ
محمد علوی