میں سفر میں ہوں
مرے جسم پر
ہیں ہزار رنگوں کی یورشیں
کہیں سرخ پھول کھلا ہوا
کہیں نیل ہے
کہیں سبز رنگ ہے زہر کا
مگر آئنہ شب شہر کا
مری ڈھال ہے
جو وصال ہے
وہی اصل ہجر مثال ہے
مرے سامنے وہی راستے
وہی بام و در
وہی سنگ ہیں وہی سولیاں
مجھے شام آئی ہے شہر میں
مجھے شام آئی ہے شہر میں
جہاں آسماں کی وسعتوں سے
سوال کاسہ بدست لوٹے تھے
یاد ہے
شب حیلہ جو تجھے یاد ہے
وہ صلیب
جس پہ مچان نجم سحر کی تھی
وہ خطیب
جس کا خطاب ابرو ہوا سے تھا
وہ صدائے ضبط عجیب تھی
کہیں کوڑھیوں کی شفا بنی
کہیں ابر و باد سے
چوب خشک تڑخ رہی تھی سویر سے
بڑی دیر سے یہاں مرقدوں کے گلاب
پاؤں کی دھول ہیں
میں سفر میں ہوں
مجھے شام آئی ہے شہر میں
مرے ہاتھ میں بھی کمان ہے
مجھے تیر دے
نظم
مجھے شام آئی ہے شہر میں
جاوید انور