مجھے خبر ہے
یہ آبنوسی چٹان جو دوب کے سبز تختے پہ آ گری ہے
نئی سبک نرم پتیوں کا سنگھار پی کر
سنہرے لمحوں کی سانس میں پھانس بن کر اٹک گئی ہے
مجھے یقیں ہے
کہ موسموں کے طلسم یہ تیرگی اڑا کر
اسی سلگتی چٹان پر دوب کی سبز زلفیں بکھیر دیں گے
مجھے یقیں ہے
مرے کٹے بازوؤں کی طاقت مری رگوں سے نہیں گئی ہے
مرے لہو کے یہ سرخ دھارے نئی حکایت کے پیش رو ہیں
نئی امنگوں نئے اجالوں نئے شفق زار کے امیں ہیں
مجھے خبر ہے
کہ غول چڑیوں کے لشکر ابرہہ کی اب کچھ خبر نہ لیں گے
ہماری آنکھوں میں روشنی ہے مگر دلوں میں سیاہیاں ہیں
اداسیوں کے گھنے دھویں میں چھپی ہوئی کامرانیاں ہیں
مجھے یقیں ہے
کہ اس فضا میں فراز صحرائے بے اماں ہیں
ہزاروں معصوم ایڑیاں رگڑ چکے ہیں رگڑ رہے ہیں
ابل پڑے گا ضرور کوئی حیات افروز آب شیریں
صداقتوں کے بہار زاروں کو آخرش تازگی ملے گی
مجھے خبر ہے مجھے یقیں ہے
نظم
مجھے خبر ہے مجھے یقیں ہے
عنبر بہرائچی