EN हिंदी
مجھے کون بلاتا رہتا ہے | شیح شیری
mujhe kaun bulata rahta hai

نظم

مجھے کون بلاتا رہتا ہے

فہیم شناس کاظمی

;

''مرے پاؤں کے نیچے خاک نہیں
کسی اور زمیں کی مٹی ہے''

مرے ہاتھ میں وقت کی راسیں ہیں
جو پل پل پھسلی جاتی ہیں

اور ہرے درختوں کی شاخیں
مرا رستہ جھانکتی رہتی ہیں

اور سبز گھنیرا جنگل ہے
مرے پاؤں کے نیچے چاند نہیں

اک اور ہی دیس کی مٹی ہے
اور دھوپ کا دریا موج میں ہے

اور دشت مرے قدموں سے لپٹا جاتا ہے
مجھے کوئی نہ کوئی بلاتا ہے

مرے پاؤں بھی میرے پاؤں نہیں
مرا جسم نہیں مری جان نہیں

مری آنکھوں نے غداری کی
مرے ہاتھ کسی نے کاٹ دیئے

مرا دل مجھے راہ میں چھوڑ گیا
اب دھوپ کا دریا موج میں ہے

اور دور کوئی جنگل میں ہے