نہیں میں یوں نہیں کہتا
کہ یہ دنیا جہنم اور ہم سب اس کا ایندھن ہیں
نہیں یوں بھی نہیں کہتا
کہ ہم جنت کے باسی ہیں
سروں پر لاجوردی شامیانے اور پیروں میں
نرالے ذائقوں والے پھلوں کے پیڑ شیر و شہد کی نہریں مچلتی ہیں
مجھے تو بس یہی کچھ عام سی کچھ چھوٹی چھوٹی باتیں کہنی ہیں
مجھے کہنا ہے
اس دھرتی پہ گلشن بھی ہیں صحرا بھی
مہکتی نرم مٹی بھی
اور اس کی کوکھ میں خوابوں کا جادو آنے والی نت نئی فصلوں کی خوشبو بھی
چٹختی اور تپتی سخت بے حس خون کی پیاسی چٹانیں بھی
مجھے کہنا ہے
ہم سب اپنی دھرتی کی
برائی اور بھلائی سختیوں اور نرمیوں اچھائیوں کوتاہیوں ہر رنگ
ہر پہلو کے مظہر ہیں
ہمیں انسان کی مانند
خیر و شر محبت اور نفرت دشمنی اور دوستی کے ساتھ جینا ہے
اسی دھرتی کا شہد و سم
اسی دھرتی کے کھٹ مٹھ جانے پہچانے مزے کا جام پینا ہے
مجھے بس اتنا کہنا ہے
کہ ہم کو آسمانوں یا خلاؤں کی کوئی مخلوق مت سمجھو
نظم
مجھے کہنا ہے
بشر نواز