EN हिंदी
مجھے اک شعر کہنا ہے | شیح شیری
mujhe ek sher kahna hai

نظم

مجھے اک شعر کہنا ہے

بقا بلوچ

;

اداسی کے حسیں لمحوں
کہاں ہو تم

کہ میں کب سے
تمہاری راہ میں

خوابوں کے نذرانے لئے بیٹھا
حسیں یادوں کی جھولی میں

کہیں گم ہوں
ارے لمحو

مجھے اس خواب سے بیدار کرنے کے لئے آؤ
میری سوچوں کے خاکوں میں

ارے لمحوں
کوئی اک رنگ بھر جاؤ

مجھے اک شعر کہنا ہے