EN हिंदी
مجھے اپنا جلوہ دکھا | شیح شیری
mujhe apna jalwa dikha

نظم

مجھے اپنا جلوہ دکھا

رفیق سندیلوی

;

ستارے
مجھے اپنا جلوہ دکھا

وقت کے کس خلا میں
مظاہر کی کس کہکشاں میں

زمانے کے کس دب اکبر میں
تیرا ٹھکانہ ہے

لاکھوں برس سے
تجھے دیکھنے کی طلب میں

جوں ہی شام ڈھلتی ہے
میں خود بہ خود کھنچتا آتا ہوں

اس غار شب میں!
عجب غار ہے

ایک بازار ہے
سیل لمعات کا

آئنے نصب ہیں
رنگ اڑتے ہیں

شیشوں کے پیچھے
چمک دار چیزوں کا انبار ہے

ریشمیں تھان کھلتے ہیں
ایک ایک کر کے

تہوں پر تہیں
لگتی جاتی ہیں

مقیش، فردار کپڑوں کی
آنکھوں میں

چوبی منقش چھتوں سے
امنڈتی ہوئی روشنی

جھلملاتی ہے
لہروں کی صورت

زری جھالروں پر
مطلا لکیروں پہ

چاندی کے پنوں پہ
سلکی مہین اور گھنے حاشیوں پر

ستارے دمکتے ہیں
مواج جالی سے

آواز آتی ہے
دیکھیں جی

بازار میں اس سے بڑھ کر مرصع
کوئی اور کپڑا نہیں ہے

اسے جو بھی پہنے گا
بالکل ستارہ لگے گا

ستارے کے مانند چمکے گا
کیا میں تجھے دیکھ پاؤں گا

اس لن ترانی کے گنبد میں
میری صدا گونجتی ہی رہے گی

نہ جانے تجھے کس کے ملبوس پر
خواب کی نوک سوزن سے

ٹانکا گیا ہے!!