EN हिंदी
مجھے ابھی بہت دور جانا ہے | شیح شیری
mujhe abhi bahut dur jaana hai

نظم

مجھے ابھی بہت دور جانا ہے

خلیل مامون

;

کیا پیروں کی تھکن اس سفر کو روک سکتی ہے
کیا راستے کے روڑے میرے ارادے کو توڑ سکتے ہیں

کیا میں یہاں سے واپس لوٹ جاؤں گا
کیا میں اور آگے چل نہیں پاؤں گا

نہیں نہیں
شاید مجھے جانا ہے بہت دور

گو ہوں میں تھکن سے چور
اور بے زار ہر منظر سے

جو بار بار لوٹ کر نظر کی اکتاہٹ بن جاتا ہے
وہی آسمان

وہی زمین
وہی چاند وہی ستارے

چاندنی میں چمکتے اور مہکتے وہی پھول
ہاتھوں میں چبھتے وہی ببول

وہی میرے من کو سلاخوں میں لہو کرنے والے اقوال
لیکن شاید اکتاہٹ بھی مانع نہ ہو

قدموں کی
شاید زندگی قیدی نہ بنے لمحوں کی

یہ تو ہوائے برگ و بار کی طرح ہے
جو کبھی نہ کبھی گزر جائے گی

میرے ذہن کے خزانے کی اوپری سطح کو بھی
کبھی نہ چھو پائے گی

شاید ابھی آگے بہت دور جانا ہے
اور ان بار بار آتے لمحوں

ہر بار آنکھ کے سامنے ابھرتے منظروں
دریاؤں صحراؤں جنگلوں

گاؤں اور شہروں
کے بھیڑ سے مجھے کوئی نیا رنگ

نکالنا ہوگا
اپنے پراگندہ ذہن کو قبر میں دفن کر کے

نیا بت نیا مندر بنانا ہوگا
پرانے لفظوں سے نیا لفظ

پرانے معانی سے نئے معانی
خلق کرنے ہوں گے

یہی نہیں
مجھے پارینہ کانوں میں

سماعتوں کے نئے پیمانے
آنکھوں کے لیے

نئے منظر نامے سے ترتیب دینے ہوں گے
چلتے چلتے میرے جوتے بھی گھس گئے ہیں

مجھے اف جوتوں کو ہی بدلنا ہوگا
اور آنکھوں پر نئی عینک لگانی ہوگی

تاکہ پرانے شیشے میں نئے رنگ
پرانے نہ دکھائی دیں

شاید یہ تھکن مجھے روک نہ پائے
شاید میں ان روڈوں کو پھلانگ دوں

شاید اپنے ہاتھوں سے ببولوں کو نوچ
پھینکوں

شاید میں سن کی سلاخوں کو توڑ کر
باہر آ جاؤں

اور ملگجی چاندنی کے عکس گھر
اپنے لہو سے سرخ رو کر دوں

اور قدم بڑھاتے آگے نگل جاؤں
شاید مجھے ابھی بہت دور جانا ہے