در مت کھولو
نیند کو اندر مت آنے دو
ورنہ
اس کی انگلیاں چھیڑیں گی
اس البم کے صفحے جس میں
تصویریں ہیں
کل کے کچھ آسیبوں کی
ذکر چھڑے گا ان اوقات کا
دفن ہیں جن میں
سب میری ناکام امیدیں
میری بے جا کاوش میرے سلگتے ارماں
پھر بھڑکے گی آگ
پھر جھلسے گا آج کا دامن
پھر فردا سے
ناطہ توڑنے والی باتیں
تازہ ہوں گی
میرے حصے کی بچی ہوئی کچھ کرنوں کو
اندھیارا ڈس لے گا
بتی نہیں بجھاؤ
در مت کھولو
نیند کو اندر مت آنے دو
نظم
مجھ کو آج نہ سونے دینا
سبودھ لال ساقی