EN हिंदी
مجسمہ | شیح شیری
mujassama

نظم

مجسمہ

عزیز تمنائی

;

میں ایک پتھر
میں ایک بے جان سرد پتھر

جمود بے گانگی کا مظہر
ازل سے حد نظر کو تکتی ہوئی نگاہیں

خلا میں لٹکی ہوئی یہ باہیں
زمیں مجھے ساتھ لے کے دشوار منزلیں لاکھوں گھوم آئی

کروڑوں راہوں کو چوم آئی
فلک کے ساحر نے کتنے افسون مجھ پہ پھونکے

مرے پس و پیش ٹمٹماتے دیے جلائے
دھوئیں کے گہرے حصار باندھے

خدائے موسم نے حربہ ہائے بہار سے مجھ کو آزمایا
خزاں کی سفاک انگلیوں کا ہدف بنایا

مگر مری بے حسی نے ہر ایک حملہ آور کا سر جھکایا
اسی گزر گاہ پر ہوں استادہ اور شاید یہیں رہوں گا

جہاں سے گزرے دھڑکتے لمحوں کے کارواں
دھیمے سر میں گاتے

حیات ناپائیدار کے مرثیے سناتے
مرے بدن کی عمیق سردی کو سرد سے سرد تر بناتے

میں کتنی صدیوں سے سوچتا ہوں
کہ کوئی جنبش

ذرا سی لرزش
اگر مری منجمد رگوں میں خودی کی دھیمی سی آنچ بھر دے

یہ آنچ لہرا کے کیا نہ کر دے!