شہید جور گلچیں ہیں اسیر خستہ تن ہم ہیں
ہمارا جرم اتنا ہے ہوا خواہ چمن ہم ہیں
ستانے کو ستا لے آج ظالم جتنا جی چاہے
مگر اتنا کہے دیتے ہیں فرداے وطن ہم ہیں
ہمارے ہی لہو کی بو صبا لے جائے گی کنعاں
ملے گا جس سے یوسف کا پتہ وہ پیرہن ہم ہیں
ہمیں یہ فخر حاصل ہے پیام نور لائے ہیں
زمیں پہلے پہل چومی ہے جس نے وہ کرن ہم ہیں
سلا لے گی ہمیں خاک وطن آغوش میں اپنی
نہ فکر گور ہے ہم کو نہ محتاج کفن ہم ہیں
بنا لیں گے ترے زنداں کو بھی ہم غیرت محفل
لیے اپنی نگاہوں میں جمال انجمن ہم ہیں
نہیں تیشہ تو سر ٹکرا کے جوئے شیر لائیں گے
بیابان جنوں میں جانشین کوہ کن ہم ہیں
زمانہ کر رہا ہے کوششیں ہم کو مٹانے کی
ہلا پاتا نہیں جس کو وہ بنیاد کہن ہم ہیں
نہ دولت ہے نہ ثروت ہے نہ عہدہ ہے نہ طاقت ہے
مگر کچھ بات ہے ہم میں کہ جان انجمن ہم ہیں
ترے خنجر سے اپنے دل کی طاقت آزمانا ہے
محبت ایک اپنی ہے ترا سارا زمانہ ہے
فدائے ملک ہونا حاصل قسمت سمجھتے ہیں
وطن پر جان دینے ہی کو ہم جنت سمجھتے ہیں
کچھ ایسے آ گئے ہیں تنگ ہم کنج اسیری سے
کہ اب اس سے تو بہتر گوشۂ تربت سمجھتے ہیں
ہمارے شوق کی وارفتگی ہے دید کے قابل
پہنچتی ہے اگر ایذا اسے راحت سمجھتے ہیں
نگاہ قہر کی مشتاق ہیں دل کی تمنائیں
خط چین جبیں ہی کو خط قسمت سمجھتے ہیں
وطن کا ذرہ ذرہ ہم کو اپنی جاں سے پیارا ہے
نہ ہم مذہب سمجھتے ہیں نہ ہم ملت سمجھتے ہیں
حیات عارضی صدقے حیات جاودانی پر
فنا ہونا ہی اب اک زیست کی صورت سمجھتے ہیں
ہمیں معلوم ہے اچھی طرح تاب جفا تیری
مگر اس سے سوا اپنی حد الفت سمجھتے ہیں
غم و غصہ دکھانا اک دلیل ناتوانی ہے
جو ہنس کر چوٹ کھاتی ہے اسے طاقت سمجھتے ہیں
غلامی اور آزادی بس اتنا جانتے ہیں ہم
نہ ہم دوزخ سمجھتے ہیں نہ ہم جنت سمجھتے ہیں
دکھانا ہے کہ لڑتے ہیں جہاں میں با وفا کیوں کر
نکلتی ہے زباں سے زخم کھا کر مرحبا کیوں کر
نظم
محبان وطن کا نعرہ
آنند نرائن ملا