EN हिंदी
مدت کے بعد | شیح شیری
muddat ke baad

نظم

مدت کے بعد

حمایت علی شاعرؔ

;

مدت کے بعد تم سے ملا ہوں تو یہ کھلا
یہ وقت اور فاصلہ دھوکہ نظر کا تھا

چہرے پہ عمر بھر کی مسافت رقم سہی
دل کے لیے تمام سفر لمحہ بھر کا تھا

کیسی عجیب ساعت دیدار ہے کہ ہم
پھر یوں ملے کہ جیسے کبھی دور ہی نہ تھے

آنکھوں میں کم سنی کے وہ سب خواب جاگ اٹھے
جن میں نگاہ و دل کبھی مجبور ہی نہ تھے

معصوم کس قدر تھیں وہ بے نام چاہتیں
بچپن سے ہمکنار تھا عہد شباب بھی

یوں آتش بدن میں تھی شبنم گھلی ہوئی
مہتاب سے زیادہ نہ تھا آفتاب بھی

پھر وہ ہوا چلی کہ سبھی کچھ بکھر گیا
وہ محفلیں وہ دوست وہ گل رنگ قہقہے

اب رقص گرد باد کی صورت ہے زندگی
یہ وقت کا عذاب کہاں تک کوئی سہے

اب تم ملیں تو کتنے ہی غم ہیں تمہارے ساتھ
پتھر کی طرح تم نے گزاری ہے زندگی

کتنا لہو جلایا تو یہ پھول مسکرائے
کس کس جتن سے تم نے سنواری ہے زندگی

میں نے بھی ایک جہد مسلسل میں کاٹ دی
وہ عمر تھی جو پھول سے ارماں لیے ہوئے

اب وہ جنوں رہا ہے نہ وہ موسم بہار
بیٹھا ہوں اپنا چاک گریباں سیے ہوئے

اب اپنے اپنے خوں کی امانت ہے اور ہم
اور ان امانتوں کی حفاظت کے خواب ہیں

آنکھوں میں کوئی پیاس ہو دل میں کوئی تڑپ
پھیلے ہوئے افق سے افق تک سراب ہیں

کس کو خبر تھی لمحہ اک ایسا بھی آئے گا
ماضی تمام پھر سمٹ آئے گا حال میں

محسوس ہو رہا ہے کہ گزرا نہیں ہے وقت
اک لمحہ بٹ گیا تھا فقط ماہ و سال میں

تم بھی وہی ہو میں بھی وہی وقت بھی وہی
ہاں اک بجھی بجھی سی چمک چشم نم میں ہے

یہ لمحہ جس کے سحر میں کھوئے ہوئے ہیں ہم
کتنی مسرتوں کا سرور اس کے غم میں ہے