EN हिंदी
مداوا | شیح شیری
mudawa

نظم

مداوا

وامق جونپوری

;

کتنے بیباک ہیں شاعر اب کے
کتنے عریاں ہیں یہ افسانہ نگار

کچھ سمجھ میں مرے آتے ہی نہیں
ان ادب سوزوں کے گنجلک اشعار

یوں تو اپنے کو یہ کہتے ہیں ادیب
پڑھتے ہیں جنگ کے لیکن اخبار

کبھی یورپ کا کبھی پورب کا
ذکر کرنے میں اڑاتے ہیں شرار

داستانیں نہ قصیدے نہ غزل
ادب تلخ کی ہر سو بھر مار

کبھی پنجاب کی بھونڈی باتیں
کبھی بنگال کے گندے افکار

خون آلودہ ہیں ان کی نثریں
پیپ بہتے ہوئے ان کے اشعار

ان کے افسانوں کے موضوع عجیب
کالی لڑکی کبھی کالی شلوار

ان داتا سے کبھی لڑ بیٹھے
کبھی افلاس پہ کھینچتی تلوار

ان کی نظموں میں کوئی لطف نہیں
نہ کوئی نغمہ نہ تفسیر بہار

کبھی آوارہ کبھی خانہ بدوش
کبھی عورت کبھی مینا بازار

بدمذاقی کی سراسر باتیں
رنگ و بو چھوڑ کے آندھی کی پکار

حرف آخر کی وہ شمشیر دو دم
زہر میں ڈوبی ہوئی جس کی دھار

جنگ آزادی کا سر میں سودا
بیسوا کے لیے اتنے ایثار

عیب پوشی انہیں آتی ہی نہیں
زخم دھوتے ہیں سر راہ گزار

ایک میں بھی تو ہوں پکا شاعر
مگر ان باتوں سے بالکل انکار

سند ماضی سے پر میرا کلام
فکر امروز سے کرتا ہوں فرار

ہوتا ہے صاف مرا ہر مصرع
ایک بھی شعر نہیں ذہن پہ بار

لیکن اس کے لیے اب کیا میں کروں
یہ سمجھتے نہیں مجھ کو فن کار

انقلاب اور ادب ہائے غضب
کتنے مخدوش ہیں یہ سب آثار

گورکیؔ جابرؔ و نذرؔ الاسلام
یہی دو چار ہیں ان کے معیار

سننے میں آیا ہے بہرے مرے کان
کہ خدا سے بھی انہیں ہے انکار

مذہبوں سے انہیں بے حد نفرت
معبدوں پر یہ اڑاتے ہیں غبار

حکمرانوں کا کوئی خوف نہیں
امرا کا نہیں کچھ دل میں وقار

چاند پر خاک اڑانے کے لیے
جب بھی دیکھا انہیں پایا تیار

مختصر یہ کہ ہر اک فعل ان کا
شعلہ در قصر شکن در دیوار

میں تو عاجز ہوں الٰہی توبہ
آخر آئے گا کبھی ان کو قرار

کوئی للہ ہٹاؤ ان کو
جاگ اٹھے ہیں سلاؤ ان کو