EN हिंदी
موری ارج سنو | شیح شیری
mori arj suno

نظم

موری ارج سنو

فیض احمد فیض

;

موری ارج سنو دست گیر پیر
مائی ری کہوں کاسے میں

اپنے جیا کی پیر
نیا باندھو رے

باندھو رے کنار دریا
مورے مندر اب کیوں نہیں آئے

اس صورت سے
عرض سناتے

درد بتاتے
نیا کھیتے

منت کرتے
رستہ تکتے

کتنی صدیاں بیت گئی ہیں
اب جا کر یہ بھید کھلا ہے

جس کو تم نے عرض گزاری
جو تھا ہاتھ پکڑنے والا

جس جا لاگی ناؤ تمہاری
جس سے دکھ کا دارو مانگا

تورے مندر میں جو نہیں آیا
وہ تو تمہیں تھے

وہ تو تمہیں تھے