کیا سلگتی رات ہے میرے ندیم
آتشیں شورش زدہ تیرے خیال
تو کہ کوسوں دور مجھ سے پر یقین
تو یہیں پاس میرے ہے کہیں
رنگ ہے کہ نور کی برسات ہے
چاندنی اور پیار کی کومل صدا
تیرے سانسوں کی مہک پھیلی ہوئی
کتنی گڈمڈ ہو گئی ہیں دھڑکنیں
لاکھ میں نے باندھ کے رکھا بدن
تیری نظروں سے جو پگھلا موم تھا
روح کو لذت تمہارے قرب میں
اور آنکھوں میں تیرا منظر رہا
رات کتنے کرب میں ڈھلتی رہی
موم پگھلاتا رہا تیرا خیال
میں کہ میرے جسم کا ہر ساز تو
تو کہ تیری بے نیازی
کیا کہوں!!
نظم
موم پگھلاتا رہا تیرا خیال
رخسانہ نور