تم اپنے کمرے میں گہری تنہائیوں میں گم تھے
گھڑی کی ٹک ٹک جو سوئی کو ٹیکتے گزرتی
تمہیں یہ محسوس ہونے لگتا
کہ جیسے سر پر کئی ہتھوڑے برس رہے ہیں
تمہاری کرسی کی چرچراہٹ
تمہاری تنہائیوں پہ لگتا کہ بین کرتی کوئی ردالی
ادھر میں اپنے جہان رنگیں میں جی رہی تھی
کہ میرے اطراف زندگی تھی
بہار تازہ بھی دل کشی تھی
حسیں ملائم سی روشنی تھی
پھر ایک دن اتفاق سے مل گئے تھے ہم تم
محبتوں کے اسیر ہو کر چلے تھے ہم تم
مگر سفر میں نہ جانے کیسے کہاں پے آخر
یہ موڑ آیا
نصیب نے پھر یہ دن دکھایا
حقیقتوں کو زوال آیا
تم آج اپنے جہان رنگیں میں جی رہے ہو
میں اپنے کمرے میں گہری تنہائیوں میں گم تھا
نظم
محبت
عنبرین حسیب عنبر