وہی بے تابیاں دل کی
وہی پھرتا ہوا دریا
وہی کچا گھڑا ہے منتظر سچ کے مسافر کا
وہی شب کی سیہ چادر
چھپی ہیں سازشیں جس میں عزیزوں کی
پرانے دوستوں کی ہم جلیسوں کی
وہی سرگوشیاں سیل ستم کی
وہی منظر
جو ہوتا ہے ہمیشہ روح فرسا حادثوں کا پیش خیمہ سا
وہی سارے قرینے سارے حیلے ہیں بہم اب کے
جو اہل دل کو بے منزل بنانے کی ہیں تدبیریں
مگر اہل جہاں کو کیا خبر
کچے گھڑے پر تیر کر راہ محبت میں فنا ہونا
الگ سے اک کہانی ہے
کہ یہ وہ موت ہے جس میں
بقائے جاودانی ہے
محبت مر نہیں سکتی
محبت غیر فانی ہے
محبت غیر فانی ہے
نظم
محبت مر نہیں سکتی
محمد تنویرالزماں