میں اس شہر خرابی میں فقیروں کی طرح در در پھرا برسوں
اسے گلیوں میں سڑکوں پر
گھروں کی سرد دیواروں کے پیچھے ڈھونڈھتا تنہا
کہ وہ مل جائے تو تحفہ اسے دوں اپنی چاہت کا
تمنا میری بر آئی کہ اک دن ایک دروازہ کھلا اور
میں نے دیکھا وہ شناسا چاند سا چہرہ
جو شادابی میں گلشن تھا
میں اک شان گدایانہ لیے اس کی طرف لپکا
تو اس نے چشم بے پروا کے ہلکے سے اشارے سے مجھے روکا
اور اپنی زلف کو ماتھے پہ لہراتے ہوئے پوچھا
کہو اے اجنبی سائل
گدائے بے سر و ساماں
تمہیں کیا چاہیے ہم سے
میں کہنا چاہتا تھا عمر گزری جس کی چاہت میں
وہی جب مل گیا تو اور اب
کیا چاہے مجھ کو
مگر تقریر کی قوت نہ تھی مجھ میں
فقط اک لفظ نکلا تھا لبوں سے کانپتا ڈرتا
جسے امید کم تھی اس کے دل میں بار پانے کی
محبت لفظ تھا میرا
مگر اس نے سنا روٹی
نظم
محبت لفظ تھا میرا
عرش صدیقی