ایسی تنہائی کہ گھر دشت لگے
ایسا سناٹا اگر پتہ ہلے
آنکھ دروازے کی آہٹ پہ جا کے رک جائے
کاش آ جائے کوئی
پھر محبت کا سفیر
میری انجان سی چاہت کا اسیر
وہ جو آ جائے تو آنگن میں ستارے آ جائیں
اس مکاں میں بھی کہ جس میں تنہا
رہ رہا ہوں میں کئی صدیوں سے
آنے والے کے مقدر کے طفیل
میری منزل مرا گھر میرے کنارے آ جائیں
جب بھی اس عالم کم ہوشی میں
دستک دل سے آنکھ کھل جائے
گھر کی دہلیز پر ٹھہر جائے
دور اک سایہ سا نظر آئے
دل یہ پھر بار بار سمجھائے
ہاں ابھی بس ابھی آتا ہوگا
میری جانب بھی کوئی
صرف محبت کا سفیر
میری چاہت کا اسیر
جب بھی آہٹ سی کوئی ہوتی ہے
اور پھر خود کو عدیلؔ
دستک دل کے ادھر
تنہا کھڑا پاتا ہوں
اور مرا عکس
مرے اپنے ہی آئینے میں
ٹھہرے ہوئے پانی میں
ہر صبح مجھ کو نظر آتا ہے
روز یہ سمجھاتا ہے
میری دہلیز پہ کوئی بھی نہیں
بس میں ہوں
ایک انجان سی چاہت کا سفیر
ایک گمنام محبت کا فقیر
نظم
محبت کا فقیر
عدیل زیدی