محبت دائمی سکھ ہے
کہ جس کو میت کی گھڑیاں
کبھی کم کر نہیں سکتیں
یہ موسم اک دفعہ آئے
تو پھر آ کر شہر جائے
حسیں شاداب سی کلیاں
نگاہوں میں سماں جائیں
تو پھر یہ مر نہیں سکتیں
خیالوں کی روانی میں
کہ جیسے بہتے پانی میں
کنول کھل جائیں خوابوں کے
تو فطرت مسکراتی ہے
اشارہ کر کے تاروں سے
چھلکتے آبشاروں سے
مدھر سرگوشیاں کر کے ہمیں رستہ دکھاتی ہے
یہ رستہ کس قدر حیران کن منظر دکھاتا ہے
اسی رستے پہ انساں خود کو پہلی بار پاتا ہے
محبت کو سزا کہنے سے پہلے سوچ کر رکھنا
کہ جو اس سے بچھڑ جائے
اسے منزل نہیں ملتی
بکھر جائیں جو بن کر خاک پھر محفل نہیں ملتی
محبت دائمی سکھ ہے

نظم
محبت دائمی سکھ ہے
شائستہ مفتی