EN हिंदी
مری رات کھو گئی ہے کسی جاگتے بدن میں | شیح شیری
meri raat kho gai hai kisi jagte badan mein

نظم

مری رات کھو گئی ہے کسی جاگتے بدن میں

صلاح الدین پرویز

;

مجھے یوں جگائے رکھتا کہ کبھی نہ سونے دیتا
سر شام ہوتے ہوتے کوئی آ کے یہ بتاتا

کہ خزاں برس رہی ہے مری نیند کے چمن میں
مری رات کھو گئی ہے کسی جاگتے بدن میں

مری رات رات عالی وہ حسب نسب پیاری
وہ گلاب چہرے والی وہ رحیم زلفوں والی

وہ برے دنوں کی ساتھی وہ اداس گل کیاری
مرے ساتھ رہنے والی کہاں جائے گی دوانی

کہ نہ گھر ہے اس کا کوئی کہ نہ گھر ہے میرا کوئی
کہاں جائے گی دوانی

کہاں جائے گی دوانی
ابھی کھل اٹھیں گے رستے کہ ہزار راستے ہیں

کہ سفر میں ساتھ اس کے کئی بار ہجرتیں ہیں
کہ دیا جلائے رکھیو کہیں وہ گزر نہ جائے

کہ ہوا بچائے رکھیو کہیں وہ بکھر نہ جائے
کہ خزاں برس رہی ہے مری نیند کے چمن میں

مری رات کھو گئی ہے کسی جاگتے بدن میں