EN हिंदी
مری پتھر آنکھیں | شیح شیری
meri patthar aankhen

نظم

مری پتھر آنکھیں

مصطفی زیدی

;

اب کے مٹی کی عبارت میں لکھی جائے گی
سبز پتوں کی کہانی رخ شاداب کی بات

کل کے دریاؤں کی مٹتی ہوئی مبہم تحریر
اب فقط ریت کے دامن میں نظر آئے گی

بوند بھر نم کو ترس جائے گی بے سود دعا
نم اگر ہوگی کوئی چیز تو میری آنکھیں

میرا اجڑا ہوا چہرہ مری پتھر آنکھیں
قحط افسانہ نہیں اور یہ بے ابر فلک

آج اس دیس کل اس دیس کا وارث ہوگا
ہم سے ترکے میں ملیں گے اسے بیمار درخت

تیز کرنوں کی تمازت سے چٹختے ہوئے ہونٹ
دھوپ کا حرف جنوں لو کا وصیت نامہ

اور مرے شہر طلسمات کی بے در آنکھیں
مری بے در مری بنجر مری پتھر آنکھیں