گھر اے دل بے قرار زنداں سے کم نہیں قید کون کاٹے
حسین سرما کا چاند دیوانہ وار کو بلا رہا ہے
فسون مہتاب کی قسم ہے پھر آج شب کچھ نہ لکھ سکوں گا
پھر آج گھر میں نہ رہ سکوں گا
کہ اک جنوں سا ہے مجھ پہ طاری
مناظر کوہ و کنج جشن شب منور منا رہے ہیں
بلا رہے ہیں مجھے مرے واسطے قیامت اٹھا رہے ہیں
غضب کی اس برف بستہ ٹھنڈی ہوا میں سیلاب چاندنی کا
بدن تو ہے منجمد رگوں میں لہو مگر تمتما رہا ہے
بلا کی ہے سرد رات لیکن میں آج آوارگی کروں گا
کہ چاند وادی کے ذرے ذرے کو جلوہ خانہ بنا رہا ہے
نہ رک سکوں گا میں آج گھر میں
کہ چاندنی کی کشش غضب ہے
سفینۂ شوق و شعر دنیائے نور میں ڈگمگا رہا ہے
سکوت شب میں فضا بھی جز و سکوت شب ہو گئی ہے فطرتؔ
مہ درخشاں فقط غزل میری زیر لب گنگنا رہا ہے
میں آج گھر پر نہ رک سکوں گا
حسین سرما کا چاند اشاروں سے دیکھ مجھ کو بلا رہا ہے
نظم
مری میں جشن شب منور
عبدالعزیز فطرت