EN हिंदी
مری ہجرتوں کی زمین پر تری چاہتوں سے لکھا ہوا | شیح شیری
meri hijraton ki zamin par teri chahaton se likha hua

نظم

مری ہجرتوں کی زمین پر تری چاہتوں سے لکھا ہوا

طارق قمر

;

ترا ایک خط مرے پاس ہے وہ محبتوں سے لکھا ہوا
تھی وہ فاصلوں کی تپش عجب مرے حوصلے بھی پگھل گئے

جہاں سوز ہجر کا ذکر ہے وہیں کوئی آنسو گرا ہوا
وہی ایک تشنہ سی آرزو کبھی قرض جس کا ادا نہ ہو

پس حرف شکوے ہزار ہوں سر لفظ کوئی گلہ نہ ہو
تری آرزو تری خواہشوں کا کوئی حساب نہ لکھ سکا

میں سراپا خود ہی سوال تھا سو کوئی جواب نہ لکھ سکا
کوئی ایسا خط مجھے بھیج پھر

جو سمجھ سکے مرے رت جگوں کی زبان کو
مری لغزشوں کی تکان کو

مری بے بسی کے بیان کو
تجھے کیا پتہ تجھے کیا خبر

مرے ہم سفر
کبھی روشنائی میں ڈھل گیا کبھی بہہ گیا مری آنکھ سے

وہی ایک درد جسے کبھی مرے لب بیان نہ کر سکے