EN हिंदी
مرے لوگو! میں خالی ہاتھ آیا ہوں | شیح شیری
mere logo! main Khaali hath aaya hun

نظم

مرے لوگو! میں خالی ہاتھ آیا ہوں

زاہد مسعود

;

کئی منظر بدلتے ہیں
کھلی آنکھوں کے شیشے پر سلگتی خاک کا چہرہ

چراغوں کا دھواں،
کھڑکی،

کوئی روزن۔۔۔
ہوا کے نام کرنے کو ہمارے پاس کیا باقی، بچا ہے؟

لہو کے پر لگی سڑکیں
کٹے سر پر برستی جوتیوں کے شور میں جاگا ہوا

بے خانماں نام و نسب،
ماتم کناں گریہ کناں آنکھیں،

شکستہ رو سحر کی سسکیاں۔۔۔
جیسے

مسیحاؤں کے اجلے پیرہن پر زخم بھرنے کی
روایت نقش ہوتی ہے

ہمارے پاس کیا باقی بچا ہے؟
طلسم آور شعوری قہقہے

کرنیں!
در مہتاب سے نکلی ہوئی کچھ مسترد کرنیں

ردائیں!
جن کے کونوں سے بندھے سکے

مرا تاوان ٹھہرے ہیں
لہو تاوان میں دے کر

میں خالی ہاتھ آیا ہوں
مرے لوگو!

بھنور کی راہ سے بچ کر میں خالی ہاتھ آیا ہوں
مجھے کس نے بلایا تھا!

کسی امید سے منسوب رستے نے
جہاں شاخ ثمر اب تک شجر کی کوکھ سے باہر نہیں نکلی

جہاں
جیون کی لمبی آستیں سانس لیتا ہے

مری آہوں کا سناٹا!!