مرے دل کے ٹوٹے ستارے کو تم نے
نگاہوں سے شمع فروزاں بنایا
دریچے میں کھلتی ہوئی اک کلی کو
لبوں نے چھوا اور گلستاں بنایا
رگ و پے میں گل رنگ سیل رواں کو
دو عالم سے یکسر گریزاں بنایا
ازل سے بھٹکتی ہوئی آرزو کو
تمنائے شہر دل و جاں بنایا
محبت کے بکھرے ہوئے خار و خس سے
جہاں میں بس اک دشت امکاں بنایا
خدا کا نہ ہونا بھی ممکن ہے لیکن
جو موجود ہے اس کو امکاں بنایا
نظم
مرے دل کے ٹوٹے ستارے کو تم نے
ذیشان ساحل