مرے چراغ بجھ گئے
میں تیرگی سے روشنی کی بھیک مانگتا رہا
ہوائیں ساز باز کر رہی تھیں جن دنوں سیاہ رات سے
انہی سیاہ ساعتوں میں سانحہ ہوا
تمام آئینے غبار سے بے نور ہو گئے
سرا کے چار سمت ہول ناک شب کی خامشی
چمکتی آنکھ والے بھیڑیوں کے غول لے کے آ گئی
قبائے زندگی وہ پھاڑ لے گئے نکیلے ناخنوں سے اس طرح
کہ روح چیتھڑوں میں بٹ گئی
خراب موسموں کی چال تھی کہ آس پاس بانبیوں سے
آ گئے نکل کے سانپ جھومتے ہوئے
بجھا دیا سفید روشنی کا دل
مدد کو میں پکارتا تھا اور دیکھتی تھیں پتلیاں تماشا غور سے
مگر نہ آئیں بین لے کے امن والی بستیوں سے جوگیوں کی ٹولیاں
سیاہ آندھیوں کا زور کب تلک سہارتے
مرے چراغ بجھ گئے
نظم
مرے چراغ بجھ گئے
علی اکبر ناطق