مرے عزیزو، مرے رفیقو
مری کمیونزم سے ہو خائف
مری تمنا سے ڈر رہے ہو
مگر مجھے کچھ گلا نہیں ہے
تمہاری روحوں کی سادگی سے
تمہارے دل کی صنم گری سے
مجھے یہ محسوس ہو رہا ہے
کہ جیسے بیگانہ ہوا بھی تک
تم اپنے انداز دلبری سے
کہ جیسے واقف نہیں ابھی تک
ستم گروں کی ستم گری سے
فریب نے جن کے آدمی کو
حقیر و بزدل بنا دیا ہے
حقیقتوں کے مقابلے میں
فرار کرنا سکھا دیا ہے
تمہیں یہ جس دن پتہ چلے گا
حیات رنگ حنا نہیں ہے
حیات حسن بتاں نہیں ہے
یہ ایک خنجر بکف کرشمہ
ایک زہریلا جام مے ہے
ہماری پیری ہو یا جوانی
ملول و افسردہ زندگانی
شکستہ نغمہ شکستہ نے ہے
تمہیں یہ جس دن پتہ چلے گا
تعصبات کہن کے پردے
تمہاری آنکھوں میں جل بجھیں گے
یہ تم نے کیسے سمجھ لیا ہے
کہ دل مرا عشق سے ہے خالی
مری نظر حسن سے ہے عاری
قریب آؤ تمہیں بتاؤں
مجھے محبت ہے آدمی سے
مجھے محبت ہے زندگی سے
مجھے محبت ہے مہ جبینوں
سے، گل رخوں سے سمن بروں سے
کتابوں سے، روٹیوں سے، پھولوں سے
پتھروں سے، سمندروں سے
مری نگہ میں بسے ہوئے ہیں
ہزار انداز دل ربائی
میں اپنے سینے کو چاک کر کے
اگر تمہیں اپنا دل دکھاؤں
تو تم کو ہر زخم کے چمن میں
ہزار سرو رواں ملیں گے
اداس مغموم وادیوں میں
ہزارہا نغمہ خواں ملیں گے
ہزار عارض، ہزار شمعیں
ہزار قامت، ہزار غزلیں
سبک خراماں غزال جیسے
ہزار ارماں ہزار امیدیں
فلک پہ تاروں کے جال جیسے
مگر کوئی توڑے دے رہا ہے
لرزتی مژگاں کے نشتروں کو
دلوں کے اندر اتارتا ہے
کوئی سیاست کے خنجروں کو
کسی کے زہریلے تیز ناخن
عقاب کے پنجہ ہائے خونیں
کی طرح آنکھوں پہ آ رہے ہیں
گلاب سے تن مثال بسمل
زمین پر تلملا رہے ہیں
جو پیاس پانی کی منتظر تھی
وہ سولیوں پر ٹنگی ہوئی ہے
وہ بھوک روٹی جو مانگتی تھی
صلیب زر پر چڑھی ہوئی ہے
یہ ظلم کیسا، ستم یہ کیا ہے
میں سوچتا ہوں یہ کیا جنوں ہے
جہاں میں نان جویں کی قیمت
کسی کی عصمت، کسی کا خوں ہے
تمہیں بتاؤ مرے عزیزو
مرے رفیقو، تمہیں بتاؤ
یہ زندگی پارہ پارہ کیوں ہے
ہماری پیاری حسیں زمیں پر
یہ قتل گہہ کا نظارہ کیوں ہے
مجھے بتاؤ کہ آج کیسے
سیاہ بارود کی لکیریں
کٹیلے کاجل، سجیلے سرمے
کے بانکپن سے الجھ گئی ہیں
خزاں کے کانٹوں کی انگلیاں کیوں
ہر اک چمن سے الجھ گئی ہیں
مجھے بتاؤ لہو نے کیسے
حنا کے جادو کو دھو دیا ہے
حیات کے پیرہن کو انساں
کے آنسوؤں نے بھگو دیا ہے
بتا سکو تو مجھے بتاؤ
کہ ساز نغموں سے کیوں ہیں روٹھے
بتا سکو تو مجھے بتاؤ
کہ تار کیوں پڑ گئے ہیں جھوٹے
مرے عزیزو، مرے رفیقو
مری کمیونزم کچھ نہیں ہے
یہ عہد حاضر کی آبرو ہے
مری کمیونزم کچھ نہیں ہے
یہ عہد حاضر کی آبرو ہے
مری کمیونزم زندگی کو
حسیں بنانے کی آرزو ہے
یہ ایک معصوم جستجو ہے
تمہارے دل میں بھی شاید ایسی
کوئی جواں سال آرزو ہو
کوئی ابلتی ہوئی صراحی
کوئی مہکتا ہوا سبو ہو
ذرا یہ سمجھو مرے عزیزو
مرے رفیقو ذرا یہ سوچو
تمہارے قبضے میں کیا نہیں ہے
تمہاری ٹھوکر سے جاگ اٹھے گی
تمہارے قدموں میں جو زمیں ہے
بس ایک اتنی کمی ہے یارو
کہ ذوق بیگانہ یقیں ہے
تمہاری آنکھوں ہی میں ہے سب کچھ
تمہاری آنکھوں میں سب جہاں ہے
تمہاری پلکوں کے نیچے دھرتی
تمہاری پلکوں پر آسماں ہے
تمہارے ہاتھوں کی جنبشوں میں
ہے جوئے رنگ بہار دیکھو
نہ دیکھو اس بےستون غم کو
تم اپنے تیشوں کی دھار دیکھو
تم اپنے تیشے اٹھا کے لاؤ
میں لے کے اپنی کدال نکلوں
ہزارہا سال کے مصائب
ہزارہا سال کے مظالم
جو روح و دل پر پہاڑ بن کر
ہزارہا سال سے دھرے ہیں
ہم اپنے تیشوں کی ضرب کاری
سے ان کے سینوں کو چھید ڈالیں
یہ ہے صرف ایک شب کی محنت
جو عہد کر لیں تو ہم سحر تک
حیات نو کے نئے اجنتا
نئے ایلوار تراش ڈالیں
نظم
مرے عزیزو، مرے رفیقو
علی سردار جعفری