EN हिंदी
من یوم الحساب | شیح شیری
mi-yaumil-hisab

نظم

من یوم الحساب

ساجدہ زیدی

;

مجھے بے رحم ہستی کے زیاں خانے میں کیوں بھیجا گیا
کیوں حلقۂ زنجیر میں رکھ دی گئیں بے تابیاں میری

ہر اک منظر مری نظروں کا جویا تھا
فروزاں شاخساروں پر ہجوم رنگ و بو

اڑتا ہوا ابر رواں
سیماب پا موجیں

صبا کا رقص بے پروا
شب مہتاب کا افسوں

مہ و انجم کے رقصاں دائرے
روئے شفق

تاباں افق
دریاؤں کی رفتار

شب کے جاگتے اسرار
صحرا کا منور سینۂ عریاں

طلسم بیکراں کے خواب گوں سائے
مری راتوں میں مثل برق لہرائے

ستاروں کی تجلی میں تھا حرف کن کا افسانہ
بڑا فیاض تھا فطرت کا شانہ

کئی صحرا مرے گام تمنا کے شناسا تھے
وہ حرف و صوت کی وادی

وہ ذوق شعر کا جادہ
وہ عرفاں کے گریزاں آستانوں پر جبیں سائی

وہ دانش کی پذیرائی
وہ معنی کی گھنیری چھاؤں میں

ذہن رسا کا کشف وہ
اسرار کے پردے کے پیچھے

دل کی محشر خیز آوازیں
وہ غم ہائے نہانی سے فروزاں ذوق بینائی

وہ دامن کا ہر اک خار مغیلاں سے الجھنا
طول و عرض دشت و دریا پار کر جانا

وہ ہر ذرے میں دھرتی کی صدا سننا
وہ ہر قطرے کے آئینے میں

نور حسن مطلق کا لرزنا
دل نظر حرف و ہنر کا ایک ہو جانا

تکلم جستجو رفتار و غم کا مدعا پانا
کوئی عیسیٰ نفس دیتا تھا نام زیست نذرانہ

لرزتا التہاب آگہی سے تھا مری نظروں کا پیمانہ
گریزاں ساعتوں کے کارواں کو کس نے پکڑا ہے

نظر محو مآل دوش و فردا ہے
کئی دیوار و سقف و سائباں کے منجمد چہرے

کئی اونچی فصلیں راہ میں حائل
کئی بے فیض کاوش ہائے تنہائی

کئی بے مہریاں پیکار بے مفہوم پر مائل
کئی تیروں نے میری خیمہ گاہ شوق کو چھیدا

کئی ترکش ہوئے اس جسم پر خالی ہوئی جاتی ہے رزم زندگانی مضمحل گھائل
نشاط و درد کی وہ خوشہ چینی چھوڑ دی ہم نے

عنان حسن و امکاں توڑ دی ہم نے
سکوت شام ہے

بجھنے لگے سارے ایاغ گرم رفتاری
شکستہ تار ہستی کی طرح لرزاں ہیں

گرد و پیش کے سب تار نظر
وہ ساعت آن پہنچی ہے

نگاہ واپسیں کے منتظر ہیں ٹوٹتے تارے
مجھے شاید ہمالہ کی فلک پیمائیاں آواز دیتی ہیں

میں اپنی موت سے
ان برف زاروں کی درخشندہ معیت میں ملوں گی

توڑوں گی حلقۂ زنجیر مہجوری