تمہیں معلوم ہے نا
ہمارا صحن چھوٹا ہے اور اس میں چند خواب ہی بہ مشکل پورے اترتے ہیں
اتنا کھانا جو گھر میں آئے مہمان پر بھی پورا ہو
ماں کی دوائیں وقت پر آ جائیں
باپ کو اخبار روز ملتا رہے
بچوں کو قدرے بہتر اسکول میں پڑھا سکیں
بہن کی شادی ہو جائے بھائی بھی کسی قابل ہو جائے
میں باہر جا کر تمہارے ماں باپ کے لئے بھی کچھ کروں گا
واپس جب آؤں گا تمہیں کنگن دلوا دوں گا
یہیں کہیں کوئی چھوٹی سی دکان بنا لوں گا
سو یہ سب پورا کرنے کو وہ باہر دیس چلا گیا ہے
اسے روزگار مل گیا ہے سب اچھا چل رہا ہے
لیکن کچھ خواہشیں ہیں ناتمام خواہشیں
کبھی اکٹھے آئس کریم کھانا
اس کے کندھے پر سر رکھ کر سو جانا
کبھی مسکرانا کبھی رو دینا
کسی شام ہلکی پھوار میں یوں ہی اس کے سنگ باہر نکل جانا
چھ سال ہو گئے ہیں
وہ دور دیس میں ہے اور میں تنہا
خواہشیں حسرت کا روپ دھار چکی ہیں
مگر میرے گھر کا آنگن بہت چھوٹا ہے
میری حسرتوں کی جگہ نہیں ہے اس میں
سو میں بہت خوش ہوں مسکراتی رہتی ہوں
شکر ہے سب اچھا چل رہا ہے
وہ دور دیس گیا ہے
نظم
مڈل کلاس
زہرا علوی