سفید پوشی کی اوٹ میں بے شمار آہیں چھپی ہوئی ہیں
قرین جاں ہے
وہی سبک سار زندگی کا خیال اور بس
وہ پر سکوں دن
وہ جھلملاتا جہاں کہ جس میں
ہم اپنے حصے کی زندگی کاش والہانہ گزار پاتے
یہ چھوٹی چھوٹی سی خواہشیں تھیں
کسی بڑے شہر کی کئی منزلہ عمارت سے گر پڑیں ہیں
پھر ان کا ملبہ سمیٹ کر ہم
بطور ایندھن نجس مشینوں میں جھوک آئے
وہ خواہشیں اب دھواں دھواں ہیں
دھواں جو دل سے نکل رہا ہے
دھواں جو دل میں اتر رہا ہے
جو روز و شب کا حصار بن کر
اذیتوں کے مہیب سائے میں ڈھل رہا ہے
مگر یہ سائے زمانے بھر کی تمازتوں کے مقابلے میں
کسی بھی نعمت سے کم نہیں ہیں
لہٰذا ان پر بھی اب اصول طلب رسد کا نفاذ ہوگا
حساب و دفتر یہ میز کرسی کے بعد معلوم ہو سکے گا
کہ اپنی گم گشتہ حسرتوں کے سحاب میں سے
ہمارے حصے میں کیا بچا ہے
ہماری قسمت میں لکھا ہے
بساط نو کے ہمیں کھلاڑی ہمی کھلونے
ہمیں تماشہ لگانے والے
ہمیں فسانہ بنانے والے
مگر ہمارا نہ تذکرہ ہے کہانیوں میں
کسی تماشے میں کوئی کردار تک نہیں ہے
فنا کے نغمے رجائیت کے سروں میں گانا
ہمیں سکھایا ہے زندگی نے
یہی بتایا ہے زندگی نے
ہمارے غم کا نصاب طے ہے
ہماری منزل بھی طے شدہ ہے
کہ اس سے آگے گزر ہمارا
اگر ہوا بھی تو واجبی سا
وہ خواب سارے جو ہم نے دیکھے
سراب نکلے عذاب نکلے
یہ زندگی بھی عجیب شے ہے
کہ اس کو پانے میں کھو دیا ہے اسی کو ہم نے
نظم
مڈل کلاس
سلمان ثروت