اے مرے شعر کے نقاد تجھے ہے یہ گلہ
کہ نہیں ہے مرے احساس میں سرمستی و کیف
کہ نہیں ہے مرے انفاس میں بوئے مئے جام
چمن دہر کی تقدیر کہ میں ہوں وہ گھٹا
جس نے سیکھا ہی نہیں ابر بہاری کا خرام
رات تاریک ہے اور میں ہوں وہ اک شمع حزیں
جس کے شعلے میں نہیں صبح درخشاں کا پیام
میرے پھولوں میں صباؤں نہ بہاروں کا گزر
میری راتوں میں ستاروں نہ شراروں کا گزر
میری محفل میں نہ مطرب نہ مغنی کا سرود
میرے مے خانے میں موج مئے امید حرام
میں وہ نقاش ہوں کھویا ہوا بھٹکا نقاش
جس کے ہر نقش میں تخئیل کے ہر پیکر میں
مسکراتی ہے بڑے ناز سے روح آلام
اے مرے دوست! مرے غم کے پرکھنے والے
بس چلے میرا تو لا دوں تجھے روح گل تر
بخش دوں اپنی تڑپ، اپنا جنوں اپنی نظر
پھر تجھے اپنے شب و روز کا عالم دکھلاؤں
ہر تبسم میں تجھے شائبہ غم دکھلاؤں
خون ناحق پہ جو ہوتا ہے وہ ماتم دکھلاؤں
پرتو خور سے جو بے جاں ہے وہ شبنم دکھلاؤں
تجھ کو دکھلاؤں کہ بے رنگ ہے کس درجہ سحر
تیرہ و تار سی یہ رات، بھیانک سی فضا
ڈگمگاتے ہوئے قدموں کو مرے دوست بڑھا
اک ذرا اور بلندی پہ خدا را آ جا
دیکھ اس وسعت تاریک کے سناٹے کو
دیوتا موت کا کھولے ہوئے جیسے شہ پر
اور اس وسعت تاریک کے سناٹے میں
کوئی چھینے لیے جاتا ہے ستاروں کی دمک
کوئی بے نور کیے دیتا ہے شعلوں کی لپک
کوئی کلیوں کو مسلتا ہے تو پھر کیا کیجے
زخم گل تجھ کو مہکنا ہے تو ہنس ہنس کے مہک
کون صیاد کی نظروں سے بھلا بچتا ہے
طائر گوشہ نشیں! خوب چہک! خوب چہک!
جاگتی زرد سی آنکھیں نہ کہیں لگ جائیں
درد افلاس! ذرا اور چمک اور چمک!
لعل و گوہر کے خزانے بھی کہیں بھرتے ہیں
عرق محنت مجبور! ٹپک اور ٹپک!
ہے ترے ضعف پہ کچھ مستیٔ صہبا کا گماں
اے قدم اور بہک! اور بہک اور بہک!
وہ چمکتی ہوئی آئی ترے سر پر شمشیر
مژۂ طفلک معصوم جھپک! جلد جھپک!
سینۂ خاک میں بے کار ہوا جاتا ہے جذب
رخ بے داد پہ اے خون جھلک! آہ جھلک!
قطرہ قطرہ یوں ہی ٹپکاتا رہے گا کوئی زہر
تو بھی اے صبر کے ساغر یوں ہی تھم تھم کے چھلک!
موت کا رقص بھی کیا چیز ہے اے شمع حیات!
ہاں ذرا اور بھڑک اور بھڑک اور بھڑک!
ہر طرف کارگہ دہر میں اٹھتا ہے دھواں
ہر طرف موت کے آثار، تباہی کے نشاں
سرد اجسام بتاتے نہیں منزل کا پتا
راہیں ویران ہیں، ملتے نہیں راہی کے نشاں
ظلمت غم ہے کہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے
ہاں مگر کس نے جلائے ہیں یہ حکمت کے دئیے
آنکھیں چیخیں کہ نکل آیا وہ امید کا چاند
چونکا دیوانہ کہ دامان دریدہ کو سیے
دوڑا مے خوار کہ اک جام مئے تند پیے
خواہش مرگ مرے سینے میں ہونے لگی ذبح
ڈوبتے دل نے دعا مانگی کی کچھ اور جیے
یک بیک آندھیاں اٹھنے لگیں ہر جانب سے
آن کی آن میں گہنا گیا امید کا چاند
آن کی آن میں گل ہو گئے حکمت کے دئیے
نہ تو دیوانے کا دامان دریدہ ہی سلا
نہ تو مے خوار کو اک قطرۂ صہبا ہی ملا
بدلیاں چھٹنے نہ پائی تھیں کہ پھر چھانے لگیں
بجلیاں سر پہ اسی طور سے لہرانے لگیں
جس کے سینے میں ہوں اے دوست ہزاروں ناسور
جیتے جی اس نے بھلا چین کبھی پایا ہے
آہ آئی ہے مرے لب پہ تو کیوں کر روکوں
کیا کروں اشک اگر پلکوں پہ ڈھل آیا ہے
لیکن اے دوست! مرے درد کے بے حس نقاد
مرے آنسو مری آہیں بھی تو کچھ کہتی ہیں
مری افسردہ نگاہیں بھی تو کچھ کہتی ہیں
اور داغ دل ناکام دکھاؤں کیسے
دل خوں گشتہ کا پیغام سناؤں کیسے
یوں تو کہنے کو یہ آنسو ہیں بس اک قطرۂ آب
جن میں سرخی دل پرخوں کی نہ سوز و تب و تاب
پر کوئی نرم سا جب راگ سنا دیتے ہیں
یہی آنسو ہیں کہ اک آگ لگا دیتے ہیں
چین کب دیتی ہیں افسردہ نگاہیں میری
آندھیاں سینوں میں بھر دیتی ہیں آہیں میری
صبر اے دوست! ابھی سرد کہاں غم کی آگ
لب تک آئے بھی تو جل جائیں گے سب عیش کے راگ
صبر اے دوست کہ اک ایسا بھی دن آئے گا
خاص اک حد سے گزر جائے گا پستی کا شعور
سینۂ خاک سے پھر اٹھے گا وہ شور نشور
گنبد تیرۂ افلاک بھی تھرائے گا
وہ اسیران بلا کا در زنداں پہ ہجوم
کانپتی ٹوٹتی زنجیروں پہ رقص بے ربط
رقص بے ربط میں پھر ربط سا آ جائے گا
غیر کے ساغر زرپاش کا پھر جو بھی ہو حشر
اپنا ہی جام سفالیں کوئی چھلکائے گا
گیسوئے شاہد گیتی میں پرو کر موتی
کوئی دیوانہ بہت داد جنوں پائے گا
صبر اے دوست کہ اک ایسا بھی دن آئے گا
انجمن بدلے گی سب ساز بدل جائیں گے
گانے والوں کے بھی انداز بدل جائیں گے
نظم
میری شاعری اور نقاد
معین احسن جذبی